HEART OF PAKISTAN - KARACHI - کراچی پاکستان کا دل
کراچی کے بارے میں کچھ معلومات
دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر روشنیوں کا شہرکراچی آباد ہے، یہ شہر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اس کے علاوہ صنعتی تجارتی مواصلاتی تعلیمی اور اقتصادی گڑھ ہے۔ دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے،یہ صوبہ سندھ میں واقع ہے اور اس کا کیپیٹل بھی ہے۔ سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ کراچی کا ہے، یہ شہر پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ یہ پاکستان کا انٹرنیشنل شہر ہونے کا درجہ رکھتا ہے اور پورے ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور شہروں کی کفالت کرنے میں پیش پیش ہے، تمام پاکستان سے مختلف لوگ روزگار کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں نسلی لسانی مذہبی گروہ پرورش پاتے ہیں اور امن و امان جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے کراچی کا نام کولاچی ہوا کرتا تھا یہاں ماہی گیروں کی بستیاں ہوا کرتی تھیں جس میں سے ایک کا نام کولاچی گوٹھ تھا۔کراچی جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے کراچی کا رقبہ 3,527مربع کلو میٹر ہے۔یہ ایک ناہموار میدانی علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں، دو بڑی ندیاں ملیر ندی اور لیاری ندی جو شہر کے عین درمیان سے گذرتی ہیں۔ شہر کے ساتھ کئی چھوٹی بڑی ندیاں اور برساتی نالے بھی گذرتے ہیں۔ کراچی شہر کی بندرگاہ جنوب مغرب میں واقع ہے اور نہایت اہمیت کی حامل ہے یہ چاروں طرف سے زمین سے گھری ہوئی ہے اس لئے اسے خوبصورت بندرگاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و بنیاد کا کام انگریزوں نے کیا ، آزادی کے وقت کراچی کو نوآموز مملکت کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ بعدازاں شہر میں لاکھوں مہاجرین کا دخول ہوا۔ صدر شہر ہونے کی وجہ سے اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی کراچی خان قلات کی مملکت کا حصہ رہا۔ بعدازاں جب خان قلات اور حکمران طبقہ کے بیچ جنگ چھڑ گئی تو کراچی پر سندھ حکومت کا قبضہ ہوگیا۔ تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی بڑھنے لگی اور اس میں اضافہ ہوگیا سرگرمیاں تیز ہونے کی وجہ سے کئی لوگ اس طرف آنے شروع ہوئے ایسے میں انگریز صاحب بہادر کی نگاہیں اس شہر کی طرف ہوگئیں۔ انگریزوں نے تین فروری ۱۸۳۹ کو کراچی پر حملہ کردیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ تین سال بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کردیا گیا اور اسے ایک ضلع کا درجہ دیدیا گیا۔انہوں نے اسے ایک اہم تجارتی مرکز بنانے کے لئے ترقیاتی کام کروائے، دوسری طرف آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔ ۱۸۷۶ قائد اعظم کی پیدائش تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کے طور پر ابھرا جس کا انحصار ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ عمارتیں تعمیر کی گئیں بیگمات کے لئے مارکیٹیں بنائی گئیں جس میں ایمپریس مارکیٹ بولٹن مارکیٹ سرفہرست ہے۔ اس دور کی پرانی عمارتیں آج بھی کراچی میں نظر آتی ہیں یہ کبھی نہایت اجلی اور خوبصورت ہوا کرتی تھیں، کبھی یہاں سیاحت ہوا کرتی تھی اور لوگ باہر ممالک سے کراچی گھومنے آیا کرتے تھے، یہ کراچی کی ادبی تعلیمی سرگرمیوں کا دور بھی رہا تھا۔کراچی کا موسم شہر میں بارشوں کا زور کم ہےسال میں اوسطاً 250ملی میٹر تک بارش ہوتی ہے۔ جن کا زیادہ تر حصہ مون سون میں ہی ہوتا ہے۔ ساحل ہونے کی وجہ سے ہوا میں نمی موجود ہے اور کراچی کے موسم میں اعتدال پایا جاتا ہے۔ نومبر سے فروری تک موسم سرما رہتا ہے اور پھر دسمبر اور جنوری سردی کا زور رہتا ہے۔ مگر جس طرح جغرافیائی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں سردی گرمی کے اوقات میں رونما متوقع تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ کہتے ہیں کراچی اب ویسا کراچی نہیں رہا جیسا پہلے تھا، سب کچھ بدل گیا ہے ، روشنیوں کا یہ شہر معدوم ہوچکا ہے اور اب یہاں اندھیرے اپنا ڈیرہ ڈالنے کو جیسے تیار ہیں، بیرونی سازشیں اور اندرونی خلفشار نے کراچی کی صورت بگاڑ دی ہے مگر شاید دعائیں ہیں جو اب تک چل رہا ہے، اسے مٹانے کو کوشش کی جاتی ہے مگر یہ پھر سے منظرعام پر نمودار ہوجاتا ہے، یہاں چار سے پانچ قومیں بستی ہیں باقی اقلیتیں بھی یہاں موجود ہیں، یہاں پورے پاکستان سے ہر قوم کا فرد پایا جاتا ہے جو یہاں آکر اپنا روزگار حاصل کرتا ہے کماتا ہے اور اپنے شہر لے جاتا ہے۔صنعتی شہر ہے، اور انسانوں کا جنگل ہے،حکومتی ادارے اور ان کی کارکردگی کا فقدان ہے اور قانون کی کوئی بالا دستی نہیں، انصاف یہاں خریدا اور بیچا جاتا ہے، غریبوں کی شنوائی نہیں، مہنگائی کا گراف بڑھتا رہتا ہے کھانے پینے کی تمام اشیا مہنگی ترین ہوتی جارہی ہیں، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ، بے روزگاری نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، نوجوان بے روزگاری سے پریشان ہیں اور خودکشی پر مجبور ہیں، گو کہ ایک طرف ہمیں کراچی پررونق نظر آتا ہے بڑے بڑے شاپنگ مالز پوش ایریاز میں بڑی شان سے جابجا نظر آتے ہیں، بڑی مہنگی کاریں دوڑتی ہوئی بڑی شاہراہوں پر نظر بھی آتی ہیں مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو صرف اشرافیہ تک محدود ہے غربت کا رخ بڑا وسیع ہے جو ہر طرف موجود ہے بس دیکھنے کی ضرورت ہے۔یہاں ہر کاروباری اپنی مرضی سے سامان بیچ رہا ہے کم تول رہا ہے زیادہ تول رہا ہے اداروں کو کوئی سروکار نہیں، کھانے پینے ، مرغی کی دکانوں، گوشت کی دکانوں پر مکھیاں نظر آئیں گی ا ن کو ختم کرنے کے لئے اسپرے کا کوئی انتظام نہیں۔ گندگی کا ڈھیر کچرا جابجا نظر آتا ہے ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اگر بن بھی جائیں تو چند دن بعد اس سے زیادہ خراب حالت میں نظر آتی ہیں، ایسا لگتا ہے کراچی کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ کوئی ادارہ ایمانداری سے تنخواہ نہیں لے رہا۔ جہاں چلے جائیں رشوت دئے بغیر کام ناممکن ہے۔ یہاں صرف بدمعاشوں کی اجارہ داری ہے ورنہ شرفا اپنی عزت لے کر منہ چھپائے بیٹھے ہیں، وقت ہے کہ ہم سب کو مل بیٹھ کر کراچی کے لئے کچھ کرنا ہوگا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کو انقلابی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے ورنہ نظر بد بہت بری چیز ہے۔
Comments
Post a Comment