Hindi Movies Review


  •  
  • رام تیری گنگا  میلی ۱۹۸۵ میں آئی ایک بلاک بسٹر فلم تھی جسے آر کے پروڈکشن کے بینر تلے  بنایا گیا، ۸۰ کی دہائی  میں ریلیز کی جانے والی  یہ فلم  ،   ویسے تو محبت پر مبنی بڑے بجٹ کی فلم  تھی مگر اس میں محبت  کے ساتھ کچھ ایسے موضوعات کو بھی جگہ دی گئی  جس کی بنیاد پر  یہ فلم  دیگر فلموں سے منفرد بن گئی، کہانی  کار   راج کپور تھے کہ  جنہوں نے  ہندو  مذہب سے  جڑی دریا ئےگنگا   کی عقیدت  کو  بڑی خوبصورتی  سے اجاگر کیا  راج صاحب جو  بھارت کی  مظلوم عورت   اور دریا گنگا  کی کہانی  کو یکجا کرکے  ان کے  ذریعے کئی سلگتے ہوئے مسائل  کی نشاندہی کرنا چاہتے تھے، اس میں  شاید وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے  ،    مرکزی کردار  کو گنگا کے نام سے  پیش کیا،  اور اس طرح  دو مرکزی کرداروں نرین اور گنگا پر  محیط  رکھا گیا، جن کی محبت  کے  ذریعے  سماجی معاشی  سازشی  کھیل   کے تانے بانے بنے گئے،  فلم کا میسج نہایت واضح تھا  جسے پبلکلی  سمجھنے میں  کوئی دقت   نہیں ہوئی،  راج کپور صاحب نے  اس فلم  کا کافی حصہ اپنی بیمار ی کے دوران کرایا، فلم مکمل کرانے میں ان کے  بیٹےرندھیر کپور کا  بڑاہاتھ رہا،   جبکہ یہ فلم جو  اپنے دو تین سینز کے لئے کنٹروورسی  کا شکار بھی ہوئی اور سنسر بورڈ کی طرف سے قدغن لگائے جانے کے باوجود   بھی وہ سینز حذف  نہ کئے جاسکے، راج کپور نے ان سینز کے لئے منظور شدہ سرٹیفیکٹ  حاصل کرلئے تھے  اور انہی  کے مطابق  ان سینز کو  بحیثیت آرٹ  اپنی فلم میں شامل کیا تھا اور وہ  کہتے تھے کہ یہی وہ سینز ہیں جو میری اس فلم کی خوبصورتی  کا عین مظہر ہیں،     اور حقیقت بھی  شاید کچھ ایسی ہی تھی،  بتایا گیا  کہ یہ وہ دو سینز بھی تھے جن کے لئے کئی بڑی ہیروئنز  صاف منع کرچکی تھیں  ، جن میں پدمنی کولہا پوری   اور خوشبو   سرفہرست ہیں ، وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے  اسکرپٹ میں  کچھ کسنگ سینز اور   دیگر چند ایک  سینز کی وجہ سے  اس فلم سے انکار کردیا تھا ، جبکہ منداکنی نے  ان سینز کو  فلمائے جانے کے لئے فوری رضامندی ظاہر کی،   جبکہ پونم ڈھلون  اپنے ایک بیان میں   ان دونوں کے بیانات کو رد کرتے ہوئے کہہ چکی  تھیں کہ  راج صاحب  جو اپنی فلموں کے لئے نئے چہرےکی تلاش میں  تھے،   ان کی پہلی چوائس    نیلی آنکھوں والی منداکنی  ہی تھی، یہ منداکنی کی پہلی فلم تھی   جسے منداکنی کسی بھی حال میں  کھونا نہیں چاہتی تھیں،  انہیں معلوم تھا کہ راج پروڈکشن کے بینر تلے کام کرنے کے کتنے فائدے انہیں پہنچ سکتے ہیں،  یہ فلم جسے ۱۶ اپریل ۱۹۸۵ کو  تمام سینماؤں پر ریلیز کردیا گیا تھا،  پہلے ہی شو سے  ہائی ریٹنگ لینے میں کامیاب رہی۔ اور ۸۰ کی دہائی کی یہ بلاک بسٹر فلموں کرانتی اور  میں نے پیار کیا  کے ساتھ  ٹاپ ۱۰ لسٹ میں شامل رہی۔پانچ ایوارڈ اپنے نام کئے، جبکہ سات  جگہ اسے نومینیٹ کیا گیا جن میں منداکنی  کا نام بھی بیسٹ اداکارہ کے شامل کیا گیا مگر ایوارڈ  حاصل نہ کرسکیں،  ۱۷۸ منٹ کے دورانئیے کی اس فلم کا بجٹ ایک کروڑ ۴۴ لاکھ رکھا گیا تھا جس نے باکس آفس پر  ۱۹ کروڑ کا بجٹ کلیکٹ کیا جبکہ دنیا بھر سے  ۳۲۶ کروڑ کما کر دئیے۔  اور یوں یہ فلم بلاک بسٹر فلموں کی صف میں  براجمان رہی، فلم نے جہاں اپنی کئی  وجوہات سے عوام کا دل جیتا وہیں موسیقی  نے بھی اس فلم کو عروج پر پہنچا دیا، تمام گانے بے حد مشہور ہوئے اور  ہر طرف  ان کا کافی زور رہا، موسیقار  رویندرا جین تھے جنہوں نے  ۹ گانوں کو فلم میں جگہ دی،   لیرکس  رویندرا جین کے ساتھ  بی تیواری اور امیر قزلباش کے تھے، گلوکاران میں لتا منگیشکر، سریش واڈیکر کی آوازوں کو شامل کیا گیا،  پروڈیوسر رندھیر کپور  تھے۔  اور  ہدایت کار راج کپور  تھے،  جنہوں نے اسے آر کے فلمز کے پروڈکشن تلے بنایا۔  کاسٹ میں راجیو کپور، منداکنی، دیویارانا، کل بھوشن کھربنڈا، رضا مراد،  سشما سیٹھ،  سعید جعفری،  گیتا سدھارتھ،  اے کے ہنگل، ارمیلا بھٹ و دیگر  کئی اہم فنکار  شامل تھے۔  راجیو کپور کی یہ پہلی اور آخری فلم تھی  جو بلاک بسٹر ثابت ہوئی جبکہ  ان کی کوئی فلم اس قدر کامیابی حاصل نہ کرسکی،  رادھا کے کردار میں  دیویارانا کو اس فلم سے  اپنے لئے کئی امیدیں تھیں  جو پوری نہ ہوسکیں،  فلم دیکھنے کے بعد انہوں نے  راجیو کپور جو ان دنوں ان کے  بیسٹ فرینڈ تھے  سے شکایت بھی کی کہ  ان کے تمام اہم سینز فلم سے کٹ کئے گئے ہیں ،  راجیو کپو ر تو کوئی جواب نہ دے سکے مگر دیویا رانا نے اس فلم کو دوبارہ نہ دیکھنے کی قسم کھائی تھی ۔ رضا مراد کے کردار  بھگوت چوہدری کو پہلے امریش پوری کو  ادا کرنا تھا مگر امریش پوری  اپنی مصروفیات کی وجہ سے کوئی  ڈیٹس نہیں دے پارہے تھے ایسے میں رضا مراد کو فلم میں کاسٹ کرلیا گیا،  باقی ماندہ کاسٹ  اسکرپٹ  کے دوران ہی  سلیکٹ کی جاچکی تھی۔  رام تیری گنگا میلی  راج کپور کی آخری فلم ثابت ہوئی ،  دوران شوٹنگ وہ کئی بار کافی بیمار ہوئے  اور  فلم کے  باقی ماندہ کام کو رندھیر کپور نے    سنبھالا،     رام تیری گنگا میلی راج کپور کی  وہ فلم ہے جو آج بھی  شائقین کے دلوں پر راج کرتی دکھائی دیتی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ  اس کی پسندیدگی میں کوئی کمی اب تک   دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔


  •  
  • ۱۹۹۰ کے سال میں آئی  فلم  پولیس  اور پبلک کرائم پر مبنی قتل کیس کو لے کر بنائی جانے والی   ایک دلچسپ   ہندی فلم   تھی ، فلم کی کہانی کرونا نامی  غریب گھرانے کی لڑکی کے قتل سے شروع ہوتی ہے ،   جو  گاؤں کے بڑے زمیندار گھرانے کی بہو ہے ۔  ارون شرما  نامی نوجوان جو  بڑے زمیندار  کرشن شرما کا  عیاش بیٹا ہے ،  بتایا جاتا ہے کہ وہ کرونا کو  اپنی عیاشی کے لئے اس سے شادی تو کرلیتا ہے مگر اسے  دل سے بیوی تسلیم نہیں کرتا، اس کیس کی تفتیش  پہلے تو  انسپکٹر شاہنواز خان کے سپرد کی جاتی ہے جو ایمانداری اور فرض شناسی سے  اس پورے کیس کو انویسٹی گیٹ کرتا ہے مگر بہت جلد سازش کرکے  اس کا تبادلہ کرا دیا جاتا ہے اور کرونا  کا کیس ایک راشی اوباش پولیس آفیسر  ماہا  سنگھ گریوال کے حوالے کردیا جاتا ہے، جو   کرشن شرما سے منہ مانگی رشوت کھاکر  اس کیس کی فائل بند کرا دیتا ہے اور یوں کرونا کا غریب باپ اور بہن مایوس ہوکر   کرونا کی موت پر صبر کرلیتے ہیں ،  کرونا کا کیس  کچھ اس طرح  خبروں کی زینت     بنتا ہے کہ عام عوامی نمائندوں  کی بھی اس کیس میں دلچسپی  شامل ہوجاتی ہے وہ اس کیس کے فیصلے سے مطمئن نہ ہوتے  ہوئے سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کا موجب بنتے  ہوئے  کیس کو ری اوپن   کرنیکا مطالبہ کرتے ہیں ، یہ کیس سی بی آئی کے سپرد کرنے کی استدعا  کی جاتی ہے ، پبلک کے انوالو ہوجانے سے بالآخر یہ کیس ایک نئے ایماندار شخص  جگموہن  آزاد کے سپرد کردیا جاتا ہے جو اپنے طریقے سے اس الجھے ہوئے کیس کو  حل کرکے مجرموں کو بے نقاب کرکے  قانون کا بول بالا کرتا ہے۔  کبیر بیدی، نصیر الدین شاہ اور منوج کمار  کے فن کو اجاگر کرتی ہوئی اس فلم نے  دیکھنے والوں کے لئے پورے وقت سسپنس کرئیٹ کرکے رکھا،   فلم میں  ایک طرف پولیس  فورس  کی پازیٹیو پالیسیز  کو دکھایا گیا تو وہیں اس میں شا   مل کالی بھیڑوں کی نشاندہی  بھی کی گئی  دوسری طرف پبلک  کی  شورش بھی دکھائی گئی جو   کسی غریب بے گناہ کے قتل پر  کس طرح   ری ایکٹ کرسکتی ہے یوں پولیس اور پبلک  کا وہ  آپسی تصادم  فلم میں شامل کیا گیا ،  جس سے پورا معاشرہ نبرد آزما ہے۔ یہ فلم ۱۱ مئی ۱۹۹۰ کو بھارت کے تمام سینماؤں         پر ایک ساتھ ریلیز کی گئی تھی،  پرتھیما فلمز کی اس پیشکس کو وجے پی مہتا نے پروڈیوس کیا، مصنف معین الدین تھے، اور ڈائریکٹر  اسماعیل شیرف تھے جو اس سے پہلے  ۱۹۸۰ میں تھوڑی سی بے وفائی  ڈائریکٹ کرچکے تھے، جبکہ تھوڑی سی بے وفائی کے مصنف  بھی معین الدین  تھے جنہوں نے اس فلم کی کہانی لکھی۔ فلم سسپنس  پر مبنی تھی لحاظہ اس میں چار گانوں کو ضرورت کے تحت شامل کیا گیا،   لیرکس  اسد بھوپالی  کے تھے، موسیقار   رام لکشمن تھے، جنہوں نے لتا منگیشکر، امیت کمار،  اور آشا بھونسلے کی آوازوں کو  شامل کیا، اس فلم کا ایک گانا  میں جس دن بھلا دوں ،   بے حد  پسند کیا گیا  جس کی دھن اور  لیرکس پاکستان کی فلم خوشبو سے  حاصل کئے گئے تھے، جہاں اسے مہ ناز اور مہدی حسن نے  بہترین گاکر ایوارڈ حاصل کیا تھا وہیں لتا منگیشکر اور امیت کمار نے  بھی اس گانے کو امر کردیا۔  کاسٹ میں   راج کمار، پونم ڈھلون، نصیر الدین شاہ، کبیر بیدی، اے کے ہنگل،  راج کرن، شیکھا سواروپ،  ارباز علی خان،  پریم چوپڑہ،   راکیش بیدی، ایلا ارون،  اور ہریش  پاٹیل  شامل  کئے گئے،  یوں تو کہانی لکھتے وقت  رائٹر کے  دماغ میں  جو کردار تخیل پاتے ہیں    اور ان کرداروںکی مناسبت سے  جو فنکار لئے جانے ہوتے ہیں  وہ  کسی بھی وجہ سے  حاصل نہیں ہوپاتے، جس سے پروڈیوسر، رائٹر، ڈائریکٹر  کبھی کبھی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں، یہی کچھ یہاں بھی ہوا ،   اداکار  ارباز  علی خان    جنہوں نے شیام کا کردار ادا کیا اور یہ فلم میں اوشا سواروپ  کے بوائے فرینڈ بنے، ارباز خان جو  ماضی کے معروف   ولن  اجیت کے بیٹے بھی ہیں  ،  انہیں فلم میں کاسٹ کیا گیا،  ارباز علی خان  نے سات سے ۸ فلموں کے بعد  ٹی وی کا رخ کیا مگر وہاں بھی کوئی خاص کام نہ چل پایا ، پولیس پبلک  فلم چند وجوہات کی بنا پر  کئی اسٹارز سے محروم رہی جس کی وجہ سے اسے اے  بی اور سی کلاس  اداکاروں کا مرکب  بنا دیا گیا، جبکہ یہ اپنے  کہانی پلاٹ کی وجہ سے  بہترین فلم تھی جو  ۱۹۸۸  کی ملیالم فلم   سی بی آئی  دیاری کوریپو کی کاپی تھی،  پونم ڈھلون جو فلم کی مرکزی  کردار تھیں جن کا قتل ہوجاتا ہے اس لحاظ سے انہیں زندہ اور مردہ کردار    بیک وقت کرنے کا موقع ملا،  پونم ڈھلون جو ان دنوں  کوئی کامیاب فلم  دے نہیں پارہی تھیں سخت پریشان تھیں ایسے میں پولیس پبلک  کو انہوں نے غنیمت سمجھ کر لیا مگر یہ فلم بھی ان کے کیرئیر  کے لئے سود مند ثابت نہ ہوسکی تھی۔ جبکہ راج کمار  جن کے  اسماعیل شیرف  بہت بڑے فین تھے، اور ان کی یہی کوشش رہتی کہ وہ اپنی فلموں میں راج کمار کو ہی کاسٹ کریں، ان کی بنائی جانے والی کئی فلموں میں راج کمار  جلوہ گر رہے،  پولیس پبلک جسے سوشل میڈیا پر  باآسانی دیکھا جارہا ہے یہ فلم سسپنس فلموں کے دلدادہ  افراد کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں۔ہم لاتے ہیں ایسی ہی فلموں کی مختصر  سی اسٹوریز   آپ کے لئے ہم سے جڑے رہئیے۔
  •  


  • کمار گوروو اور سنجے دت کو لے کر بنائی جانے والی  سپر ہٹ فلم   نام   کو بھارتی سینماؤں پر  ریلیز کیا گیا تو عوام، کا جم غفیر  اسے دیکھنے  جو ق در جوق  سینماؤں پر پہنچا،  یہ  ایک  جرائم  کی دنیا کو  پیش کرتی سوشل ، ڈرامائی ، ایکشن فلم تھی،   جو دو بھائیوں کے حالات  زندگی کولے کر بنائی گئی،  نام جو یقیناً سبق آموز اور معاشی سماجی پہلوؤں کو اجاگر کرتی  بہترین فلم کے طور پر سامنے آتی ہے۔
  • جس میں معاشی بے کسی غربت  کی وجہ سے  پیش آنے والے کئی مسائل کا شکار  گھرانہ  بھی دکھایا گیا ،   کہ کس طرح وکی نامی نوجوان   اپنے ملک کے سسٹم کی خرابی کی وجہ سے  جرائم  کی دنیا کو اپناتا ہے اور ملک سے باہر  جانے کو ترجیح دیتا ہے، روی  جو ذمہ دار ی نبھاتے ہوئے اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے مگر  وقت اور حالات دونوں کو ایک دوسرے سے جد اکردیتے ہیں،  ماں اور دو بیٹوں پر مشتمل اس گھرانے  کے مصائب دراصل  کئی گھرانوں کے مسائل تھے جنہیں اس فلم میں اجاگر کیا گیا، فلم کا میسج ان حکمرانوں کے لئے تھا جو اس ملک میں عوا م کے  لئے بہتر روزگار فراہم کرنے میں ناکام  ہوکر ایسے واقعات اور کہانیوں کا موجب بنے۔  یہ فلم  ۱۲ ستمبر ۱۹۸۶ کو سینما گھروں پر ریلیز کی گئی،  جس کے ڈسٹری بیوٹر آریان فلمز  والے تھے۔ کمار گوروو اور سنجے دت کو لے کر یہ فلم  مہیش بھٹ کی ہدایات کاری میں بنائی گئی جس کے پروڈیوسر ماضی کے  معروف اداکار اور کمار گوروو کے والد راجندر کمار تھے، جنہوں نے کمار گوررو کے لئے یہ فلم پروڈیوس کی،  حالانکہ کمار گوروو نے بھی اپنے والد کے ساتھ ملکر اس فلم کو پروڈیوس کرنے میں کافی حصہ لیا،   کمار گوروو کی پہلی فلم لو اسٹوری   ۱۹۸۱ کی زبردست کامیاب فلم رہی،  اس کے بعد ان کی ۹  فلمیں ریلیز ہوئیں مگر  کوئی بھی فلم   لو اسٹوری  کی پہنچ تک نہ پہنچ سکیں، نام فلم کے لئے   راجندر کمار کو   سلیم خان سے اسکرپٹ لکھوانے کی ضرورت پیش آئی جس کے لئے انہوں نے ان سے رجوع کیا اور  اپنا آئیڈیا گوش گذار کیا، سلیم خان ان دنوں خاصے مصروف تھے مگر راجندر کمار کی  پریشانی کو بھانپتے ہوئے انہوں نے نام فلم کا اسکرپٹ  تیار کیا جبکہ  دوسری طرف راجند ر کمار  نے مہیش بھٹ کو بطور ڈائریکٹر  چنا  اور فلم کی شروعات کا عندیہ دیا  ،  مہیش بھٹ اس سے پہلے دو آرٹ موویز ارتھ اور سارانش   ڈائریکٹ کرچکے تھے، جبکہ یہ ان کی  پہلی   کمرشل فلم  تھی ، کہانی کے اعتبار سے کمار گوروو کو مرکزی کردار  میں لیا جانا ان کو آگے لانے کے لئے ہی تھا، جبکہ سنجے دت  جن کی پہلی فلم  ۱۹۸۱ کی روکی نے  بڑی کامیابی سمیٹی تھی،  اتفاق سے کمار گوروو کی طرح ان کا بھی وہی حال رہا  ۸ سے ۹ فلمیں ان کی   بھی مسلسل فلاپ رہیں ، جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سنجے دت جو ان دنوں ڈرگ کا شکار ہوگئے تھے ،  اور چہرے مہرے سے ہیرو والی کشش کھوتے جارہے تھے مگر انہیں فوری طور پر ری حیب بھیجا گیا اور واپسی پر یہ فلم  ان کے نام کی گئی، جس میں  سنجے دت اور کمار گوروو دونوں ہی  اپنی بہترین پرفارمنس   کی وجہ سے پسند کئے گئے، یہ فلم سپر ہٹ ہوئی ،  ۲ کروڑ کے بجٹ کی اس فلم   نےباکس آفس پر  ۴ کروڑ کے لگ بھگ کاروبار کیا جبکہ  دنیا بھر سے ۷ کروڑ ۴۰ لاکھ کا  کلیکشن کیا۔ ۱۹۸۶ کی کمائی کرنے والی فلموں میں  ۴ فلمیں ٹاپ پر آئیں جن میں نام فلم کا نمبر چوتھا تھا جبکہ پہلے نمبر پر کرما فلم  رہی تھی،  موسیقی کے لحاظ سے اس فلم نے  کافی پذیرائی حاصل کی ۶ گانوں   کو فلم میں شامل کیا گیا جن کی موسیقی لکشمی کانت پیارے لال نے  دی،  تمام گانوں کو دنیا بھر میں سنا گیا، گلوکاران میں محمد عزیز،  پنکج ادھاس، لتا منگیشکر،  منہر ادھاس،  کویتا کی آوازوں  کو شامل کیا گیا، جبکہ اداکاران میں  سنجے دت، کمار گوروو، نوتن، پونم ڈھلون،  امریتا سنگھ، پاریش راول،  راکیش روشن، آکاش خرانا،  پرنیما داس و دیگر کئی اہم فنکار  شامل تھے۔ ۸۰ کی دہائی  ایسی دہائی تھی  جس میں انڈین فلموں کا پاکستان میں  بڑ ا زور رہا، جو فلمیں ہندوستان میں  چل نہیں پاتی تھیں پاکستان میں    خوب چلا کرتیں،  اس فلم نے جہاں ہندوستان میں مارکیٹ بنائی وہیں پاکستان میں بھی  کافی پذیرائی دیکھنے کو ملی،  اس کی بڑی وجہ فلم میں پیش کئے  گئے حالات و واقعات  کا  کئی لوگوں   سے مماثلت ہونا تھا، پہلے راجندر کمار  وکی کا کردار کمار گوروو کو دینا چاہ رہے تھے  جو ان کے لحاظ سے زیادہ دم دار تھا،  مگر سنجے دت اور کمار گوروو کی آپسی رضامندی سے  یہ کردار جوں کے توں رہے،  سلیم خان نے اس فلم کا نام راستہ رکھنے کی تجویز دی  تھی مگر  بعد میں اس کا  ٹائٹل بدل کر نام کردیا گیا۔  پاریش راول  فلم میں بطور ولن نظر آئے جو ان کے کیرئیر کی پہلی  فلم رہی، یوں تو  وہ چار چھ  فلموں میں جلوہ گر ہوچکے تھے مگر  اس سے پہلے دنیا انہیں  جانتی تک نہ تھی، اس فلم سے ان کا بطور ولن  کامیاب سفر شرو ع ہوا اور پھر انہوں نے  تیزی سے وہ سفر طے کیا جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں۔  بعدازاں انہیں ولن کے بجائے کامیڈی، پازیٹیو  سنجیدہ رول ملنے شروع ہوگئے جو ان کے لئے  سود منڈ ثابت ہوئے۔  فلم میں ایک گانا جسے پنکج ادھاس نے گایا لوگوں کے دلوں کو چھو گیا اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ یہ گانا  ہند و پاک کے ان لوگوں کا عکاس تھا   جن کے پیارے اپنے وطن سے باہر تھے، اس گانے نے فلم میں  بھی ایک سماع باندھ دیا،  اس فلم سے پنکج ادھاس کو کافی پذیرائی ملی، پنکج ادھاس جو اس سے پہلے معروف غزل گو تھے پہلی بار اس فلم میں ان کو اعزازی  طور پر  انکی آواز کے ساتھ شامل کیا گیا۔  فلم میں سیما رائے کا کردار ادا کرنے والی پونم ڈھلون تھیں جنہوں نے جب فلم کا پریمئیر دیکھا تو بہت مایوس ہوئیں جس کا اظہار انہوں نے مہیش بھٹ سے کیا بھی ،  انہوں نے فلم میں اپنا  مختصر سے کردار  دیکھ کر اعتراض کیا،بقول ان کے کہ ان کے کئی سینز کاٹے گئے ہیں،  جس پر مہیش بھٹ نے  کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔ نوتن جنہوں نے ۱۹۵۰ سے فلمی کئیرئیر کا آغاز کیا تھا یہ فلم ان کی   ۱۹۸۶  میں کرما کے بعد ریلیز ہوئی،  راجندر کمار کے مطابق  وکی اور روی کی ماں کا کردار  ادا کرنے والی  ایک ہی  خاتون ہونگی اور وہ  نوتن  ہونگی۔ گویا نوتن کو راجندر کمار کی خواہش کے مطابق فلم میں لیا گیا۔  اور ان تمام واقعات حالات کے بعد یہ فلم  تیار ہوئی، اسے دنیا بھر میں دیکھا گیا پسند کیا گیا، نام فلم اب بھی یوٹیوب  یا دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر  باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔


  • کالیہ فلم امیتابھ بچن کی ۱۹۸۱ میں آنے والی ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی، امیتابھ بچن کا یہ دور عروج بھی تھا  کہ جب ہند و پاک میں  ان ہی کی فلموں کا زور  تھا، ہندوستان میں تو لوگ سینماؤں پر  فلمیں دیکھا  ہی کرتے مگر پاکستان میں انہیں وی سی آر پر  دیکھا  گیا ، فلموں کے کیسٹس کرائے پر ملا کرتے تھے،  کالیہ فلم کو بھی  زائد کرائے پر حاصل کرکے دیکھا گیا،  یہ فلم ایکشن اور ڈرامائی موڑ کے بہترین ڈائلاگز کے ساتھ خوب دیکھی گئی،  غرض یہ کہ ایکشن کے متوالوں نے اسے کئی کئی بار دیکھا اور اس کے تمام ڈائیلاگز  بھی بولے جاتے رہے،  کالیہ فلم کی کہانی ایک سادہ سے نوجوان پر محیط تھی ، جو کلو سے کالیہ تک کے سفر میں کئی مشکلات تکالیف سہتے ہوئے اس وقت   ایک نئے روپ  میں  سامنے آتا ہے جب     اس کے بڑے بھائی  شامو  کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، ایسے میں  کلو    بدلہ  لینے کے لئے دشمنوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے ،   اور  اسی کی پاداش جیل پہنچ جاتا ہے وہیں اس کی مدبھیڑ  ایک ایمان دار جیلر رگوویر سے ہوتی ہے، رگو ویر  اور   کالیہ کے درمیان جس طرح کے  مکالموں کا تبادلہ  کرایا گیا  وہ اپنی مثال آپ تھا،       ٹنو آنند کے والد اندر راج آنند  نے فلم کے تمام تر مکالمے لکھے تھے ، اند ر راج  جو اپنے ڈائیلاگز میں تلفظ کی کوئی غلطی  برداشت  نہیں کرتے تھے،  یہی وجہ تھی کہ اداکاروں کو اکثر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا،  یہاں بھی امیتابھ بچن  کے ساتھ ایسا ہی ہوا،  انہیں اپنے ڈائیلاگز یاد کرنے میں کافی دقت کا سامنا رہا اور ایک موقع پر  اند راج ان پر غصہ بھی ہوئے اور  انہوں نے  بچن کو برملا  کہا کہ  ہرونش رائے بچن کے بیٹے ہوکر اردو سے   اتنی پریشانی سمجھ سے بالا تر ہے، جس پر امیتابھ بچن نے   خاندان کی لاج  رکھتے ہوئے فوری اپنے ڈائیلاگز یاد کرلئے۔  درحقیقت  امیتابھ بچن جو  کالیہ فلم  میں  کام  کرنے کے متمنی نہیں تھے  وہ جانتے تھے کہ یہ ٹنو آنند کی پہلی فلم  ہے جس  میں ثقیل اردو  میں ڈائیلاگز  لکھے گئے ہیں، امیتابھ بچن نے  اسکرپٹ پڑھا تو تو ان کا موڈ خراب ہوگیا تھا مگر بعد ازاں  انہوں نے اپنے کو ایڈجسٹ کرلیا۔   یاد رہے کہ   کالیہ فلم کے  یہی مکالمے فلم کی  ایسی جان بن گئے  کہ  پبلک  ہر ڈائیلاگ کی ادائیگی پر  اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے رہے،  یہ فلم حقیقت میں بہترین  فلم تھی مگر امیتابھ بچن کے شامل کئے جانے سے یہ فلم صف اول کی فلمو ں میں ٹاپ پر چلی گئی، امیتابھ بچن جن کا ایک ایک ایکشن، انداز، آواز کی کشش اور پھر ڈائیلاگز ڈلیوری  نے  اس دور کے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنالیا،  اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا  کہ اس وقت  ہر نوجوا ن  امیتابھ بچن بننے  کی کوشش  کرتے ہوئے پایا گیا ، امیتابھ بچن سے پہلے راجیش کھنہ کا  ایک کامیاب دور  رہا ، امیتابھ بچن نے   راجیش کھنہ  کی  پوزیشن کو بے حد متاثر کیا ،  راجیش کھنہ جو محض رومانس  کی دنیا کے بادشاہ تھے ایسے میں امیتابھ بچن نے رومانس کے ساتھ ایکشن    کی خالی جگہ کو  بھی پر کردیا،    کالیہ فلم کو  ۲۵ دسمبر ۱۹۸۱ کو  ریلیز کیا گیا۔  رائٹر اندر راج آنند  اور  سنتوش ساہ تھے، ہدایت کار ٹنو آنند تھے،   فلمساز  اقبال سنگھ تھے جبکہ موسیقار آر ڈی برمن تھے ، جنہوں نے بہترین موسیقی کے ساتھ  چھ گانے شامل کئے۔  جو آشا بھونسلے، کشور کمار، محمد رفیع نے گائے۔  فلم کے تمام گانوں نے عوام پر اپنا جادو بکھیرا،  کاسٹ میں امیتابھ بچن کے ساتھ پروین بابی، آشا پاریکھ،  پران،  قادر خان، امجد خان، پرنیما، کے این سنگھ، سدھیر، مراد و دیگر کئی اہم فنکار شامل تھے۔  ڈیڑھ کروڑ اس فلم کا بجٹ رکھا گیا  جبکہ اس نے ۳ کروڑ ۷۵ لاکھ  کا کلیکشن کیا،  اور یوں یہ فلم سپر ہٹ رہی۔  مگر ایوارڈ ز کے بارے میں  کوئی جانکاری نہیں ملتی۔

Comments

Popular posts from this blog

HISTORY OF TAJ MAHAL AGRA - INDIA- تاج محل ایک تاریخی مقبرہ مغل بادشاہ کی نشانی

پاکستابی ڈرامے اور اس میں بسنے والے کردار

فرار ڈرامہ اور باتش کا کردار ادا کرنے واکے حمزہ علی عباسی (اجمل احمد)