Chandni - چاندنی 1989



  •  
  • فلم چاندنی ۱۹۸۹ میں آئی  لو اسٹوری  پر بیسٖڈ  متاثر کن فلم تھی،  یش چوپڑہ جنہوں نے یہ فلم ایز اے ڈائریکٹر   و پروڈیوسر ایک انگریزی فلم سے متاثر ہوکر  تخلیق کی، یش چوپڑہ جو  کافی ٹائم سے ٹرائی لو اینگل  جیسے موضوع کو لے کر بڑی بے صبری سے  کوئی  فلم بنانا چاہتے تھے  اور  ایسی کہانی کی تلاش میں تھے جس سے انکے ذہن کے اندر  چلنے والی کہانی کو  فلم کے پردے پر دکھایا جاسکے، اب یہ  کسی کو پتہ نہ تھا کہ یہ آئیڈیا انہوں نے کب حاصل کیا،  بتایا جاتا ہے کہ  وہ  اس فلم کے پلاٹ پر  کچھ دنوں سے غور و خوض میں مصروف تھے مگر دیگر  فلموں کی مصروفیات پر  اسے عملی جامہ پہنانے سے قاصر  رہ جاتے، بالآخر انہوں نے اس فلم کی رائٹر  کامنا چندرا سے  اپنے خیال کو  شئیر کیا تو انہوں نے یش جی کے آئیڈیا کو  کہانی کی شکل دے ڈالی جو یش جی کو پسند آئی،   جبکہ  ایک ٹریجڈی سین  رشی  کپور کے مشورے سے فلمایا گیا، ۱۹۸۷ کے اواخر میں  آپسی تبادلہ خیالات کے بعد اسے باقاعدہ اسکرپٹ کی شکل میں  ڈھالا گیا ،  کہانی کو  مکمل محبت  و ایثار کی کہانی  پر مبنی رکھا گیا ،  جس میں ٹرائی اینگل لو و   دکھایا جانا تھا،   کہانی  ایک حسین   مگر متوسط طبقے کی لڑکی چاندنی   کے گرد گھومتی ہے، چاندنی   کا  کزن کی شادی کے سلسلے میں دہلی جانا ہوتا ہے جہاں    کزن کے ایک دوست روہت سے ملاقات ہوتی ہے، پہلے روہت اور بعد میں چاندنی بھی  اسے چاہنے لگتی ہے،  روہت کے والدین کے اختلاف کے باوجود بہرحال ان کی منگنی ہوجاتی ہے،  ایک روز روہت اپنی محبت کا ثبوت دینے کے لئے چاندنی کو فون پر کہتا ہے کہ وہ گھر کی چھت پرپہنچے، چاندنی چھت پر پہنچتی ہے تو روہت ہیلی کاپٹر میں سوار اس پر پھول نچھاور  کرتا ہے،اچانک خرابی سے ہیلی کاپٹر گرکر تباہ ہوجاتا ہے اور  روہت مفلوج ہوکر وہیل چئیر  پر پہنچ جاتا ہے،  گپتا خاندان  کی طرف سے چاندنی کو منحوس قرار دیا جاتا ہے حالانکہ چاندنی دل و جان سے روہت کو  اب بھی اپنانے کو تیار ہے،    روہت نہیں چاہتا کہ چاندنی ایک اپاہج کے ساتھ زندگی گذار دے، اس نیت سے وہ  اپنا رویہ چاندنی سے  بہت برا کرلیتا ہے چاندنی دلبرداشتہ ہوکر  ممبئی روانہ ہوجاتی ہے جہاں   وہ ایک فرم جوائن کرلیتی ہے اور وہیں اس فرم کا مالک للیت کھنہ  چاندنی پر مر مٹتا ہے،  اور  اسے پرپوز کرتا ہے، چاندنی کی ماں لتا تو یہی چاہتی ہے مگر چاندنی شش وپنج کا شکار رہتی ہوئے کوئی جواب نہیں دیتی، دو سال گذر جاتے ہیں،  للیت کا سوئزر لینڈ جانا ہوتا ہے وہاں اس کی ملاقات روہت سے ہوجاتی ہے جو اپنے علاج کے سلسلے میں یہاں مقیم تھا،  دونوں کی دوستی ہوتی ہے اور ایک موقع پر دونوں ہی اپنی اپنی محبوباؤں کی  شان میں قصیدے سناتے ہیں جبکہ دراصل  دونوں ہی انجانے میں چاندنی کی یاد میں  کھوئے ہوتے ہیں،روہت صحت یاب ہوجاتا ہے اور انڈیا آکر جب چاندنی  کا عقدہ کھلتا ہے تو دونوں پر ہی بجلی گرتی ہے، ایسے میں للیت اپنی محبت کو  قربان کرتے ہوئے چاندنی اور روہت کو ملوا دیتا ہے۔ چاندنی کے کردار کو سری دیوی نے  نبھایا ، روہت کے کردار میں رشی کپور، اور للیت کھنہ  کے کردار میں ونود کھنہ نظر آئے،  دیگر میں وحیدہ رحمان،  سشما سیٹھ،  متھا وششت،  انوپم کھیر،  رینو آریا، جوہی چاؤلہ و دیگر  شامل کئے گئے۔ جہاں فلم کی کہانی کو دلچسپ مراحل سے  گذارا گیا وہیں موسیقی کو بھی اعلی معیار کی بنانے کی کوشش کی گئی،  موسیقار   شیو  کمار اور ہری   پرساد تھے کہ جنہوں نے پورے تین گھنٹے کی اس فلم میں    ۱۱ گانوں کو شامل کیا۔ گلوکاران میں لتا منگیشکر، سریش واڈیکر، جولی مکرجی،  ونود راٹھور، پامیلا چوپڑا،  بابلا مہتا،  آشا بھونسلے کی آوازیں شامل کی گئیں،  اس لحاظ سے جہاں یہ لو ٹرائی اینگل فلم کہلائی وہیں نغماتی فلم بھی بن گئی،   چاندنی فلم کے مرکزی تین کرداروں کا کافی پسند کیا گیا،  فلم کی دلچسپ بات یہ رہی کہ للیت کا کردار  جسے ونود کھنہ نے ادا کیا ، چوپڑہ صاحب  اس کردار میں  امیتابھ بچن کو  سائن کرچکے تھے،  بقول چوپڑہ صاحب  میں امیتابھ کو اینگر ی ینگ مین  کے کرداروں سے نکال کر رومانس کی دنیا میں لانا چاہتا تھا،  جیسے کبھی کبھی، سلسلہ  میں وہ نظر آئے تھے۔   امیتابھ نے  سیٹ پر آنا بھی شروع کردیا تھا  مگر اچانک ریہرسل کے دوران ہی انہوں نے  اپنے  آئندہ  کے امیج کو  مدنظر رکھتے ہوئے یہ فلم چھوڑ دی، جس کی وجہ سے ونود کھنہ کو فوری کاسٹ کرنا پڑا،  جس پر کہنے والوں نے  یہ بھی کہا کہ یہ یش جی  کے لئے بہتر ہی ہوا کیونکہ ونود کھنہ امیتابھ بچن سے زیادہ  اس کردار کے لئے موزوں نظر آئے۔    سری دیوی کی یش چوپڑہ کے ساتھ یہ پہلی فلم تھی،  جس میں  یش  چوپڑہ نے ایک  پورے رقص کے پلے بیک میوزک  کو سری دیوی کی مرضی سے  شامل کیا،  جبکہ ٹائٹل سونگ میں  بھی ان کی آواز کو شامل کرکے   انفرادیت قائم کی،  اس فلم نے   جہاں یش چوپڑہ کو سہارا دیا وہیں سری دیوی کے لئے بھی خوش آئند ثابت ہوئی ان دونوں  کی یکے  بعد دیگرے کئی فلمیں فلاپ  ہوچکی تھیں  ایسے میں  یش چوپڑہ کو   بھی ایک سپر ہٹ فلم کی ضرورت تھی ،   گو کہ یہ فلم اس وقت  معرض وجود میں آرہی تھی کہ جب ہر طرف ایکشن فلموں کا دور دورہ تھا،  حلقوں میں چہ مگوئیاں  جاری تھیں کہ  شاید چاندنی فلم  یش چوپڑہ کو کوئی فائدہ نہیں دے سکے گی مگر  قسمت کی یاوری کہ یہ فلم  سپر ہٹ ہوگئی اور  اُس وقت  دو کروڑ ۸ لاکھ  کے بجٹ کی اس فلم نے  باکس آفس پر ۱۷ کروڑ دو لاکھ کی کلیکشن کرکے کئی فلموں کو پیچھے چھوڑا اور ۱۹۹۰ کا ۳۵ واں فلم  فئیر ایوارڈ  برائے  سینما آٹوگرافی اپنے نام کیا۔  جبکہ سات بار اسے فلم فئیر کے لئے مختلف شعبوں  میں  نامزد کیا گیا۔ یہ فلم جسے تقریباً ۳۶ سال کا عرصہ بیت چکا ہے آج بھی پرانی فلموں کے شوقین اسے دیکھ رہے ہیں جبکہ اس کی شہرت کے باوجود اس کے سیکوئیل یا ریمیک کی کوئی  خبر سامنے نہیں آسکی ہے،  جبکہ یش صاحب کے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ  یش فلم کے بینر تلے  ان کی شہرت یافتہ فلموں کا بنایا جائے مگر تاحال اس پر عملدرآمد نظر نہیں آسکا ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

HISTORY OF TAJ MAHAL AGRA - INDIA- تاج محل ایک تاریخی مقبرہ مغل بادشاہ کی نشانی

پاکستابی ڈرامے اور اس میں بسنے والے کردار

فرار ڈرامہ اور باتش کا کردار ادا کرنے واکے حمزہ علی عباسی (اجمل احمد)