Garm Hava - گرم ہوا


 


۔ ۱۹۴۷ کی آزادی کے حالات و واقعات  پر مبنی فلموں میں  ۱۹۷۳ کی گرم ہوا  کو تمام فلموں پر فوقیت حاصل رہی ہے،  فلم کا نام گرم ہوا  رکھنے کا مقصد  وقت حالات کی طرف  اشارہ تھا کہ جب ہندوستان کے سیاسی حالات  آگ و خون کی لپیٹ میں  تھے اور گھروں سے نکلنے والے شعلوں نے   برصغیر پاک و ہند کی چلتی ہوا  کوتپش  کے اثرات سے گرما دیا تو  اس فلم کی ضرورت پیش آئی،  جس کی ہدایت کاری ایم ایس ستھیو نے دی،  کیفی اعظمی اور  شمع زیدی نے   معروف مصنفہ عصمت چغتائی  کی غیر مطبوعہ  مگر مختصر ناول  سے ماخوذ کرکے تحریر کیا ،  موسیقار  کے طور پر استاد بہادر خان  کو چنا گیا جنہوں نے فلم میں  عزیز خان وارثی و ہمنوا کی  ایک قوالی  بھی شامل کی، استا بہاد ر خان اماوس کی رات اور ندی اور ناری فلم کے حوالے سے بھی  پہچانے جاتے ہیں، فلم کے پروڈیوسر   ابو سیوانی تھے کہ جنہوں نے  ا س فلم کی تیاری میں  ایم ایس سیتھیو کا بھرپور ساتھ دیا،  یہ فلم حساس لمحات کو چھوتی ہوئی  سیاسی بھیڑ چال اور  آزادی وقت کے حالات  کا پس منظر پیش کرتی فلم ہے جس میں  آگرہ اور اتر پردیش  کے شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے مسلمان تاجر  کے گھرانے سے  شروع ہوتی ہے،  جو چمڑے کے  جوتے بنانے  والے کارخانے سے منسلک ہیں،  ۱۹۴۸ میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد پرآشوب  مہینوں  کا دور  دورہ تھا ایسے میں   خاندان کے سرپرست  سلیم مرزا  مخمصے کا شکار  ہیں کہ  وہ خاندان سمیت پاکستان ہجرت کرجائیں یا ہندوستان میں ہی رہیں،    جبکہ  پارٹی کی ذمہ داری   بھی ان پر  تلوار بن کر لٹک رہی ہے، دوسری  جانب خاندانی اختلاف  الگ سر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں ،  اسی طرح فلم کا تانا بانا  اس خاندان کے آہستہ آہستہ ٹوٹنے  پر  دھیمی رفتا رسے    آگے کی جانب بڑھتے ہوئے کئی واقعات کو جنم دیتا ہے۔  دیکھنے والوں اور سمجھنے والوں کے لئے اس فلم کو آرٹ سینما کی ایک نئی لہر کا آغاز قرار دیا گیا ،  گرم ہوا ہو یا انکور  ان دونوں فلموں کو ہی  ہندی سینما کا متوازی نشان سمجھا جاتا ہے،  اس فلم کو سنجیدہ  فلموں کا ایک بہترین سنگ میل بھی قرار دیا جاتا رہا ہے،  ۲۰۰۵ میں انڈیا ٹائمز کی طرف سے  اسے ۲۵ بہترین فلموں میں شامل کیا گیا،  مزید برآں  یہ اکیڈمی ایوارڈ کے بہترین غیر ملکی فلم کے زمرے میں  باضابطہ داخلہ  رہی،  اور کانز فلم فیسٹیول میں پالمے  ڈی آر کے لئے نامزد کیا گیا،  جبکہ ایک قومی اور تین فلم فئیر ایوارڈز اپنے نام کئے،  فلم کی کاسٹ میں  بلراج سہانی، فاروق شیخ،  دینا ناتھ زتشی، بدر بیگم،  گیتا سدھارتھ، شوکت کیفی،  اے کے ہنگل، ابو سیوانی،  جمال ہاشمی، جلال آغا،  و دیگر اداکار شامل کئے گئے۔  فلم کے ریلیز ہونے سے پہلے ہی فرقہ وارانہ بدامنی کے خوف سے فلم کو سینٹرل بورڈ آف انٖڈیا نے ۸ ماہ تک روک کے رکھا، لیکن  ڈائریکٹر ایم ایس ستھیو  کی کوششوں سے اس فلم کو بالآخر  ریلیز کیا  گیا  ،  مگر اسے پہلے بنگلور کے دو سینماؤں ساگر اور سنگیت  پر لگایا گیا،    ان سینماؤں پر گرم ہوا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی اور  یوں اسے ملک کے تمام سینماؤں پر دکھانے کا موقع مل گیا، بعد ریلیز کے یہ فلم  تما م تنقیدی  حلقوں میں بھی  قابل تعریف بن گئی،  اس فلم کا بھارتی پریمئیر ۱۹۷۴ میں کولابا، ممبئی کے ریگل سینما میں منعقد کیا گیا،  اس سے قبل شیو سینا کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط  ارسال کئے جا چکے تھے کہ  فلم کا کوئی پریمئیر  منعقد نہیں جائے گا،   ورنہ اسے اینٹی انڈیا سمجھ کر انتہائی اقدامات  اٹھانے پر مجبور کیا جانا سمجھا جائے گا،  مگر بال ٹھاکرے سے ملاقات کے بعد   اجازت پاکر  اسے محدود  انداز کی ریلیز میں شامل کردیا گیا،  باوجود اتنی مشکلات  اسے نیشنل  فلم ایوارڈ میں نرکس دت ایوارڈ  سے نوازا  گیا۔  فلم کی خاص بات یہ رہی کہ  اداکار فاروق شیخ جنہوں نے اس فلم سے ڈیبیو کیا اور ایک  پراثر انداز میں جلوہ گر ہوئے اس فلم نے ان کے لئے آج کے فاروق شیخ   تک پہنچے کی راہ ہموار کیں،  ان کی اداکاری میں تیکھا پن اس بات کی طرف صاف اشارہ تھا کہ ان کا مستقبل روشن ہے، عوام نے اس نوجوان کو پسند کیا، جبکہ سینئر  منجھے ہوئے اداکار بلراج سہانی کی یہ آخری فلم رہی،  فلم کی ریلیز سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی  جس کا افسوس پوری قوم  میں بلاواسطہ دیکھنے کو ملا،  بلراج سہانی اس فلم کو اپنی زندگی کی بہترین فلم قرار دے چکے تھے ،  اور خواہش  رکھتے تھے کہ اس فلم کو وہ پردے پر دیکھیں،  کاظم مرزا کا کردار ادا کرنے والے جمال ہاشمی جنہوں  نے  پاکستانی فلم سزا سے شروعات کی تھیں  ،  یہ مشہور اداکارہ فرح  اور تبو  کے  والد  ہیں کہ جنہوں نے    حقیقی اداکاری کی ، جبکہ جمیلہ کا کردار شوکت اعظمی نے ادا کیا جو اسی فلم  کے رائٹر کیفی اعظمی کی  بیوی  بھی ہیں، درحقیقت فلم کے تمام اداکار ہی فلم  کے لئے  اہمیت کے حامل رہے۔  آزادی پر بنی فلموں میں گرم ہوا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، جسے آج بھی دیکھا جارہا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

HISTORY OF TAJ MAHAL AGRA - INDIA- تاج محل ایک تاریخی مقبرہ مغل بادشاہ کی نشانی

پاکستابی ڈرامے اور اس میں بسنے والے کردار

فرار ڈرامہ اور باتش کا کردار ادا کرنے واکے حمزہ علی عباسی (اجمل احمد)