بازار حسن ۱۹۸۸ پاکستانی فلم جسے ۱۹۹۰ میں کاپی کی گیا
بازار حسن۱۹۸۸ کی
پاکستانی فلم اسکی کاپی پتی پتنی اور طوائف۱۹۹۰ کی ہندی فلم
- میں آئی ۱۹۸۸ میں آئی پاکستانی فلم بازار حسن جب ملک کے تمام سینماؤں پر ریلیز کی گئی تو عوام کا ہجوم دیکھنے میں آیا، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس فلم کا موضوع جسے کافی عرصہ کے بعد اٹھایا گیا تھا اور اس طرح کا سبجیکٹ ڈائریکٹر حسن طارق کے دور میں ہی دیکھنے کو ملا تھا، فلم کے پوسٹرز نے عوام کو مجبور کیا کہ وہ اس فلم کو دیکھنے آئے، یہ فلم رقص و سرور ، محبت ، اور فلمی دنیا سے وابستہ افراد پر مشتمل فلم تھی، کہانی جو ایک معروف فلم ڈائریکٹر طارق کے گرد گھومتی ہے ، جسے اپنی بیوی سے بے حد محبت ہوتی ہے، ایک موقع پر طارق کی فلم شوٹنگ کے دوران ایک نامور اداکارہ سے آپسی اختلاف ہونے پر وہ ہیروئن کو فلم سے نکال دیتا ہے، مگر اسے فلم کے لئے فوری کسی ہیروئن کی ضرورت ہوتی ہے ، ایسے میں اس کی تلاش اسے بازار حسن تک پہنچا دیتی ہے جہاں اسے مشہور طوائف گوری ملتی ہے جو بلا کا حسن رکھتی ہے، طارق اس پر دل و جان سے فریقتہ ہو جاتا ہے ، طارق کی آفر سے گوری اپنی اداؤں سے اسے پوری طرح اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور دوسری طرف طارق کی گوری پر بڑھتی ہوئی مہربانیوں سے اس کی گھریلو لائف پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور یہ فلم ٹرائی اینگل لو کہانی بن جاتی ہے، فلم سماج کے ایک نامور مرد ، گھریلو عورت اور طوائف کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے جس سے گھریلو عورت کی عظمت کا احساس تقویت پاتا ہے، اس کہانی نے دیکھنے والوں کو مبہوت کرکے رکھ دیا، یہ فلم جسے پرویز کلیم نے تحریر کیا اور ہدایت کاری کے فرائض جاوید فاضل نے نبھائے جبکہ ان کا ساتھ سرور بھٹی نے بڑی خوبی سے دیا، جنہوں نے اپنے بھائی بندوں اختر بھٹی اور اکبر بھٹی کے ساتھ مشترکہ پروڈیوس کیا، اس فلم کو بڑے اسموتھلی انداز میں لے کر چلا گیا یوں کہنا چاہئے کہ یہ فلم عام فلموں سے ہٹ کر شائقین فلم کو محسوس ہوئی، یہ فلم ٹھیک ۹ ستمبر ۱۹۸۸ کو ریلیز کردی گئی تھی، جس نے ۶ نگار ایوارڈز اپنے نام کئے، فلم میں ندیم، ثمینہ پیرزادہ، سلمی آغا، عابد کاشمیری، طالش، جہانزیب، فیصل رحمان، رنگیلا نغمہ اور البیلا و دیگر فنکار شامل تھے۔ ۱۴۰ منٹ کی اس فلم کے موسیقار ایم اشرف تھے جنہوں نے حمیرا چنا، مہ ناز اور سلمی آغا کے ساتھ فلم کے گانے ریکارڈ کروائے۔ بازار حسن سے متاثر ہوکر پڑوسی فلم کے فلمساز و ہدایت کار راج کمار کوہلی نے ۱۹۹۰ کے سال فلم پتی پتنی اور طوائف بنائی، یہ فلم جو ہو بہو بازار حسن کی نقل تھی ، اس کا آئیڈیا دراصل سلمی آغا نے راج کمار کوہلی کو اس وقت دیا جب وہ اپنی کسی فلم کے سلسلے میں ہندوستان گئیں تھیں ، انہوں نے یہ فلم باقاعدہ راج کمار کو دکھائی جو پسند کی گئی ، مگر یہ فلم جو ریلیز ہونے کے کچھ ہی ہفتوں بعد فلاپ فلموں کی فہرست میں شامل کی گئی، اسکی مکمل کہانی ، ڈائیلاگز، تمام کردار اور سینز پاکستانی فلم سے چرائے گئے ، جو عوام کو قطعی طور پر نہ بھا ئی، اگر دونوں فلموں کو غور سے دیکھا جائے تو پتی پتنی اور طوائف ، بازار حسن کا عشر عشیر بھی نہیں، ندیم کے کردار کو متھن چکرورتی نے ادا کیا، ثمینہ پیرزادہ کے فرح نے اور سلمی آغا کے کردار کو یہاں بھی سلمی آغا نے ہی گوری کے نام سے نبھایا، یہاں یہ امر واضح کرتے چلیں کہ ان تمإ م کرداروں میں جو کیمسٹری پاکستانی فلم میں دیکھنے میں آئی وہ اس فلم میں کہیں بھی دیکھنے کو نہ ملی، فلم کے گانوں سے اس فلم کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی مگر یہ وہ مقام نہ پاسکی جس کی توقعات کی جارہی تھیں، فلم کا میوزک لکشمی کانت پیارے لال نے دیا گلوکاران میں محمد عزیز، کویتا، سلمی آغا نے گیت گائے جبکہ پاکستانی فنکارہ ریشماں کو اعزازی طور پر فلم میں ایک سین دیا گیا۔ کاسٹ میں سلمی آغا، متھن چکرورتی، فرح ناز، انیتا راج، سمیت سہگل، ارونا ایرانی، جگدیپ، امجد خان، اوم پرکاش و دیگر شامل تھے۔ یہ فلم کوئی ایوارڈ اپنے نام نہ کرا سکی اور نہ ہی باکس آفس پر کوئی کمال دکھا پائی، فلم کا بجٹ ۲ کروڑ ۲۰ لاکھ تھا جبکہ یہ ۲ کروڑ ۹۰ لاکھ کلیکشن کر سکی، پہلے اس فلم کا نام رکھیل رکھا جانا تھا جو فلم کی تمام تر شوٹنگ تک رہا مگر بعد میں رکھیل کو تبدیل کرکے پتی پتنی اور طوائف رکھا گیا۔
Comments
Post a Comment