رنگیلا اور منور ظریف فلم شباب کیرانوی کی شہرت پانے والی فلم کیسے بنی؟
رنگیلا اور منور ظریف فلم شباب کیرانوی کی شہرت پانے والی فلم کیسے بنی؟
پاکستان کی فلم انڈسٹری مزاحیہ فنکاروں کے اعتبار سے کبھی مفلس نہیں ہوئی،
یہاں ہر دور میں ایک سے دو کامیڈین ایسے
ملتے رہے کہ جنہوں نے خوب نام کمایا اور
ان کی وجہ سے پاکستان کا بھی نام بنا، ان ہی کامیڈین فنکاروں میں منور ظریف کا نام
سرفہرست لیا جاتا ہے، جبکہ رنگیلا، لہری، نرالا، نذر، خالد سلیم موٹا، عمر شریف ،
چکرم اور کئی اور اداکار وں کے نام ہمیشہ لئے جاتے رہیں گے۔ منور ظریف وہ فنکار
تھے کہ جب انکے پردے پر آتے ہی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ آجاتی اور سینما ہال
تالیوں سے گونجتا، یہ عظیم فنکار جس نے
فلموں کی دنیا میں آتے ہی اپنے فن سے لوگوں کو ہنسی بخشی، زیادہ زندگی نہ
پاسکا ۳۶ برس کی زندگی وہ لے کر آئے
تھے، سن ۱۹۷۶ میں ان کا انتقال ہوا تو
لوگوں میں سوگواری پھیل گئی ، اپنے فلمی
کیرئیر میں وہ اتنا شاندار کام کرکے گئے
کہ لوگ آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں اور ان
کی فلمیں ان کی یاد تازہ کرنے کے لئے اب بھی دیکھی جارہی ہیں۔ ان کے چاہنے والوں نے ان کے نام سے کئی ادارے
تشکیل دئیے ہیں جو اپنا کام کررہے ہیں۔ ان
کی تین اردو فلمیں رنگیلا اور منور ظریف، پیار کا موسم، اور زینت ایسی فلمیں ہیں جو انٹرنیشنل لیول پر
بھیجی جاتی رہی ہیں، وہ وقت بھی آیا جب
رنگیلا اور منور ظریف کی جوڑی کی اہمیت اس
قدر بڑھی کہ ان کے ناموں پر فلمیں بننے لگیں، شباب کیرانوی، نذر شباب، کی ہر فلم میں ان دونوں کا لیا جاتا رہا، حتیٰ کہ ان کےنام پر ایک فلم رنگیلا اور منور ظریف بھی بنادی گئی جس نے پورے
ملک میں تہلکہ مچا دیا، لوگوں کا رجحان
عام ڈگر کی فلموں سے ہٹ کر کامیڈی
ہیروز کی فلموں کی طرف چلا گیا، مگر یہ
رجحان تب ختم ہوا جب منور ظریف کی ناگہانی موت ہوگئی اور رنگیلا بھی اکیلے رہ گئے
، منور ظریف کیا گئے مزاح کا ایک باب یکسر
ختم ہوگیا، گو کہ اسے سنبھالا دینے کے لئے
رنگیلا کے ساتھ کئی کامیڈین منظر عام پر آئے مگر
نتیجہ کچھ نہ نکلا اور اس طرح مزاح
کی دنیا میں سوگواری آتی چلی گئی، اور مزاح
تھیٹر اسٹیج شوز کی طرف کوچ کرگیا جہاں عمر شریف و دیگر نے اسے آگے بڑھایا،
جبکہ فلموں میں کامیڈی محض فارمیلیٹی کے
رہ گئی۔ عوام کے رجحان کو دیکھتے ہوئے فلم
رنگیلا اور منور ظریف بنائی گئی جو اپنی
نوعیت کی بھرپور کامیڈی فلم تھی، فلم کی خاص بات وہ کامیڈین
جوڑی تھی جسے لوگ ایک ساتھ دیکھنا
چاہتے تھے، فلم کے ڈائریکٹر نذر شباب تھے، جبکہ
پروڈیوسر شباب کیرانوی تھے،
موسیقار ایم اشرف اور گانوں کے بول
سرور انور نے لکھے، اسے رشید ساجد نے تحریر کیا، گلوکاران میں میڈم نورجہاں اور احمد رشدی نے
آواز کا جادو جگایا، تفریحی غرض سے بنائی
گئی اس فلم میں محبت جیسے موضوع کو رکھا گیا،
جس میں صاعقہ، شائستہ قیصر، اورنگزیب، ممتاز نذر، آشا پوسلے، ساقی، آغا
دلراج، چکرم نیناں، نجمہ محبوب، اسلم پرویز
، ناصرہ اور علاؤالدین شامل کئے گئے۔
یہ فلم لاہور پنجاب سرکٹ میں ۳۰ نومبر ۱۹۷۳ کو ریلیز کی گئی، جبکہ کراچی
سندھ سرکٹ میں ۵ جنوری ۱۹۷۴ کو عید
الاضحیٰ کے موقع پر گیارہ سینماؤں پر ریلیز ہوئی۔
فلم پیراڈائز سینما پر پورے ۱۱ ہفتے تک بھرپور رش لیتی رہی، جبکہ
مجموعی طور پر ۳۸ ہفتے تک اس فلم
نے تمام سینماؤں پر اپنا کامیاب بزنس کرکے سلور جوبلی فلم کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
Comments
Post a Comment