پنجر امرتا پریتم کے ناول سے ماخوذ شاہکار فلم کی تفصیلات و تبصرہ نگاری (اجمل احمد)

 



آزادی  کے وقتوں  پر بنائی گئی پنجر فلم کی کہانی امرتا پریتم کے ناول سے ماخوذ

ہندوستانی فلم انڈسٹری میں تقسیم ہند ۱۹۴۷ کے  وقتوں کو لے کر یا   ان دنوں جو  حالات و واقعات پیش آئے، یا اس خونریزی  میں جو خاندان ، افراد  متاثر ہوئے ان تمام کو لے کر  ڈھیروں فلمیں بن چکی ہیں،ان تمام حالات کو   کہیں جانبداری اور  کہیں غیر جانبداری سے  پیش کیا جاتا رہا،  جن میں ٹرین ٹو پاکستان، ارتھ، بیگم جان، وائسرائے ہاؤس،  ٹوبہ ٹیک سنگھ، پنجر، گرم ہوا،  غدر   و دیگر کئی فلمیں شامل ہیں، یہ فلمیں  ۱۹۴۷ میں  پاکستان کی آزادی  کے وقت مختلف حالات و واقعات کو لے کر بنائی جانے والی وہ فلمیں ہیں جو  آج بھی زیر موضوع اور زیر بحث ہیں۔  ان ہی میں ایک فلم  پنجر بھی ہے جسے ۲۰۰۳ میں  ہندوستان  میں بنایا گیا،  پنجر جس کی ابتدا   سکھ مسلم فسادات  سے ہوتی ہے، جہاں  مار کٹائی جلاؤ گھیراؤ  چل رہا تھا تو وہیں  کئی گھر خاندان  بھی  انتقام  کا شکار ہورہے تھے، ، پنجر   ڈرامائی، جذبات و احساسات اور محبت پر مبنی  فلم ہے جس میں تقسیم ہند کے وقت  ایک  خوشحال ہندو  گھرانے    میں ہونے  والے مسائل اور واقعات کا بخوبی  احاطہ کیا گیا ہے،  یہ فلم امرتا پریتم کے پنجابی ناول  پنجر سے  ماخوذ کی گئی، پنجر جسے حرف عام اردو میں پنجرہ کہا جاتا ہے۔ کہانی  کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ پورو نام کی  ہندو لڑکی  جس کی منگنی  اس کی اپنی ہندو برداری میں ہوچکی ہے،  ہندو مسلم  فسادات   دشمنی کی پاداش اور  آپسی رنجشوں کی بنا پر  رشید  پورو کو اغوا کرلیتا ہے،  برادری پورو کو قتل کرکے  ماضی کا بدلہ لینا چاہتی ہے مگر رشید کو پورو سے محبت ہوجاتی ہے جس پر وہ اس کی جان بچانے کے لئے  اپنی جان پر کھیل جاتا ہے، ایک موقع  ایسا بھی آتا ہے کہ پورو اپنے گھر بھاگ کر پہنچ جاتی ہے مگر    برادری اسے قبول کرنے سے انکاری ہوجاتی ہے ، اور پورو  ٹوٹے دل کے ساتھ واپس رشید کے پاس پہنچ جاتی ہے جہاں وہ اپنے کو محفوظ سمجھتی  ہے،  شاید پورو  کے دل میں  بھی رشیدکیلئے  محبت   جاگ جاتی ہے  ، یہی اس کہانی کا  پیغام تھا کہ وقت اور حالات  دشمن سے بھی محبت کروا نے پر مجبور کردیتے ہیں، فلم میں ارمیلا نے پورو کا کردار ادا کرکےعوام کے دل جیتے، اور ارمیلا نے یہاں سے کئی اور  اہم کرداروں کا آغاز کیا۔ اور بڑے پردے پر چھاگئیں۔ ہدایت کار  چندرپرکاش تھے کہانی کار امرتا پریتم تھیں،  جو ایک بڑی  شاعرہ  و مصنفہ تھیں جن کی ۱۰۰ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔  موسیقار اتم سنگھ تھے،  لیرک گلزار کے تھے۔  کاسٹ میں  ارمیلا  مٹونڈکر، منوج باجپائی، سنجے سوری، سندالی سنہا، پریانشو چترجی،  عشا کوپیکر،  للیت دوبے،  کل بھوشن کھربنڈا،  الوک ناتھ، فریدہ جلال، سیما بسواس و دیگر کئی اداکار شامل تھے۔   فلم کی  کافی شوٹنگ امرتسر اور واہگہ  کی سرحد پر کی گئی، بے شک یہ کہانی  امرتا پریتم کے ناول سے لی گئی مگر اس میں ڈائریکٹر اور آرٹ ڈائریکٹر کی اختراع کا بھی بڑا عمل دخل رہا۔     ایک بات اور کہتے چلیں کہ امرتا پریتم کی معروف نظم  جو پہلی بار پاکستانی فلم کرتار سنگھ میں  پیش کی گئی تھی،  اس نظم کا چرچا  درحقیقت اسی پاکستانی فلم کے  ذریعے ہوا۔    جسے بعد میں  استعمال کیا  گیا،جبکہ ۲۰۱۸ میں گھگی کے نام سے  ایک ڈرامہ ٹی وی ون   نے بھی   امرتا پریتم  کے ناول پنجر  کو لے کر بنایا،  فلم پنجر  نے ۲۰۰۴ میں فلم فئیر ایوارڈ اور  نیشنل فلم ایوارڈ  اپنے نام کرائے۔  


Comments

Popular posts from this blog

HISTORY OF TAJ MAHAL AGRA - INDIA- تاج محل ایک تاریخی مقبرہ مغل بادشاہ کی نشانی

پاکستابی ڈرامے اور اس میں بسنے والے کردار

فرار ڈرامہ اور باتش کا کردار ادا کرنے واکے حمزہ علی عباسی (اجمل احمد)