اقبال حسن نے ایک فلم کی خاطر دوسری فلم چھوڑی
- اقبال حسن پنجابی فلموں کے وہ اداکار تھے جنہیں سلطا ن راہی اور مصطفی قریشی کے بعد سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی، انہیں پنجاب کا گھبرو دیہاتی نوجوان بھی کہا جاتا رہا، وہ پنجابی فلموں کےہر فن مولا اداکار تھے جنہوں نے ہر قسم کے کردار میں اپنی اہمیت منوائی، ولن ہو یا ہیرو، ہیرو کا دوست ہو یا ہیرو کا باپ ، ہیروئن کا بھائی ہو یا رقیب انہوں نے کسی کردار سے کبھی انکار نہیں کیا کیونکہ وہ کہتے تھے فنکار وہی ہے جو ہر قسم کا کردار نبھانے کو تیار رہے، جو لوگ اقبال حسن کو قریب سے جانتے ہیں انہوں نے بتایا کہ اس بھلے مانس انسان کو اتنی کامیابی ملنے کے بعد غرور اسے چھو کر بھی نہیں گذرا تھا، اقبال حسن نے قریباً بیس سال میں ۳۰۰ کے قریب فلمیں کیں جن میں ۵۰ فلموں میں سولو ہیرو کے طور پر جلوہ گر ہوئے، پہلی فلم ۱۹۶۵ میں ریلیز ہونے والی فلم پنجاب دی شیرا تھی جس میں انہوں نے ایکسٹرا اداکار کام کیا، دل دا جانی دوسری فلم میں بھی انہیں ہیرو کے ساتھ ایکسٹرا کا رول ملا مگر اس فلم میں وہ آدھی فلم سے یکسر غائب ہوگئے تھے اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ ہدایتکار ریاض احمد نے ان کو اپنی فلم سسی پنوں کے لئے بطور مرکزی کردار پنوں کے طور پر سائن کرلیا تھا، جو عالیہ اور نغمہ کے مدمقابل تھا ایسے میں اقبال حسن کے لئے ایکسٹرا کا رول ان کے کیرئیر کے لئے خطرہ بن سکتا تھا سو انہوں نے دل دا جانی سے علیحدگی اختیار کی، سسی پنوں لوک داستانوں میں محبت کی سچی لازوال کہانی کے طور پر جانی جاتی ہے، ا س داستان میں تھر کے علاقے کی سسی جو گاؤں کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے اور سسی پنوں کی محبت بھی ہے ۔جس پر ا س وقت کے شہزادے کی نظر پڑ جاتی ہے جو اسے اغوا کرلیتا ہے، پنوں بادشاہ کے دربار میں دہائی دیتا ہے مگر اسے نظرند کرادیا جاتا ہے ، سسی پنوں ایک دوسرے سے ملنے کے لئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور ہمیشہ کےلئے امر ہو جاتے ہیں، ہدایتکار ریاض احمد کا کہنا تھا کہ اسکرپٹ کے دوران جب پنوں کے کردار کی سلیکشن پر غور ہوا تو ہماری نظر اس ایکسٹرا پر پڑی جو اس کردار کے لئے نہایت موزوں نظر آیا ۔ اور یہیں سے اس دیہاتی گھبرو نوجوان کا فلمی سفر شروع ہوگیا۔ اقبال حسن کی شہرت یافتہ فلموں کی بات کی جائے تو شیر خان فلم سب سے اہم ترین فلم ہے جو خود ان کی بھی پسند کی فلموں میں اولین درجہ رکھتی ہے، شیر خان نے ۱۹۸۱ میں سینما گھروں پر لگنے کے بعد جو شہرت کمائی وہ اپنی مثال آپ ہے، اس فلم میں گو کہ سلطان راہی اور مصطفی قریشی نے بھی مرکزی کردار ادا کئے مگر پبلک نے اس فلم کو اقبال حسن کی فلم قرار دیا، اور اس فلم میں ان کی جذباتی اداکاری سے متاثر ہوکر کئی جریدوں میں ان کی تعریفوں کے پل باندھے گئے جو غلط نہیں تھے۔ یہ فلم پنجابی بولنے والوں نے دیکھنی ہی تھی مگر اسے اردو، پشتو بولنے والوں نے بھی پورے زوق و شوق سے دیکھا اور اس کی بے حد تعریف کی، یونس ملک کی ڈائریکشن اور ناصر ادیب کی تحریر میں بنی اس فلم میں انجمن، بہار بیگم، عالیہ، نازلی، ادیب، طالش، ننھا، اقبال کاشمیری نے بھی قابل تعریف ایکٹنگ کی۔ اقبال حسن نے ٹائٹل رول ادا کیا اور بطور شیر خان فلم میں اپنی اداکاری سے مزید شہرت حاصل کی، شیر خان کے موسیقار وجاہت عطرے تھے جنہوں نے اس فلم کے گانوں کی دھنیں ترتیب دیں، فلم کے گانے اور فلموں کی نسبت زیادہ سنے گئے ، تمام تر گانے میڈم نورجہاں نے گائے جبکہ ایک گانا مسعود رانا کی آواز میں بھی ریکارڈ ہوا۔ فلم چڑھدا سورج اقبال حسن کی ۱۹۸۲ میں آئی پنجابی فلم تھی جس کے ہدایتکار بشیر رانا تھے اور کہانی کار ناصر ادیب تھے، ستاروں میں سلطان راہی، ممتاز، اقبال حسن، عالیہ، افضال احمد، عابد کاشمیری، رنگیلا و دیگر اداکاران شامل تھے۔ طافو کی موسیقی میں میڈم نورجہاں، عنایت حسین بھٹی، شوکت علی، اور ناہید اختر نے آواز کا جادو جگایا۔ یہ فلم بھی پورے پاکستان میں دیکھی گئی اور پسند کے لحاظ سے پنجابی فلموں کی صف اول کی دوڑ میں شامل رہی۔
Comments
Post a Comment